Ticker

8/recent/ticker-posts

بھارت : کورونا وائرس کے دور میں تبلیغی اجتماع غلط تو کمبھ کا میلہ ٹھیک کیسے؟

 بھارت کے علاقے ہریدوار میں ہندوؤں کا سب سے بڑا کمبھ میلہ زور و شور سے جاری ہے جس میں ایک رپورٹ کے مطابق 10 سے 14 اپریل کے درمیان 1701 افراد میں کورونآ  مثبت   پایا گیا ہے . اس وقت ملک میں پیش آنے والے واقعات کی دو الگ الگ ٹائم لائنز نظر آ رہی ہیں ایک موت اور مایوسی سے منسلک واقعات کا سلسلہ ہے تو دوسری کا تعلق عقیدے، تہوار اور اجتماعات سے ہے۔


اس دوسرے سلسلے سے سیاسی رہنما مجرمانہ  طور پر خاموش ہیں اور اس اجتماع کو وہ محفوظ سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں شامل افراد پر اوپر بیٹھے دیوتا اپنی مہربانی برسا رہے ہیں۔


پہلی ٹائم لائن میں شمشانوں کے باہر انتظار کرتے ہوئے لوگوں کا منظر ہے۔ مریضوں کے خاندان والے ہسپتالوں کے باہر بیڈ کے لیے کھڑے ہیں۔ ٹیسٹ رزلٹ کا انتظار ہو رہا ہے۔ دھڑکتے دلوں کے ساتھ لوگ آکسیجن اور وینٹیلیٹرز کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ اس دنیا میں لوگوں کو ایک بار پھر مہاجر مزدوروں کے ہجوم نظر آنے لگے ہیں، ایک بار پھر وہ اپنا سامان اٹھائے ٹرینوں سے گھر لوٹتے نظر آ رہے ہیں۔

اس دنیا میں سب کچھ غلط ہے اس دنیا میں ’کرفیو‘ کا اعلان ہو رہا ہے کسی سماجی یا مذہبی تقریب میں 50 سے زیادہ لوگوں کے جمع پونے پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔


لیکن دوسری دنیا کے واقعات کے سلسلے میں لاکھوں لوگوں کے ’مقدس غسل‘ کے مناظر نظر آ رہے ہیں۔ لوگوں کا وسیع ہجوم کمبھ میلے میں ندی میں ڈبکی لگا رہا ہے۔مرکزی دھارے کا میڈیا جنھیں عقیدت مند کہہ رہا ہے، وہ ندیوں کے پانی میں اپنے گناہ دھو رہے ہیں، جبکہ کووڈ کے کیس طوفانی رفتار سے بڑھتے ہوئے پچھلے تمام ریکارڈ توڑتے جا رہے ہیں۔


یہ وہ دنیا ہے جس میں لوگ اب بھی کورونا پھیلنے کی ذمہ داری تبلیغی جماعت پر ہی ڈال رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاسی انتظامیہ کی طرف سے اقلیتوں کے خلاف جب تعصب کے الزامات لگائے جاتے ہیں تو تبلیغیوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے۔


آپ کو یاد ہو گا کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران بڑے بڑے ٹی وی چینلوں نے انھیں ’انسانی بم‘ کہا تھا۔ لیکن کمبھ میں ڈبکی لگانے والے ’عقیدت مند‘ ہیں۔


اترا کھنڈ کے وزیر اعظم تیرتھ سنگھ راوت نے منگل کو کہا کہ ہریدوار میں جاری کمبھ میلے کا موازنہ پچھلے سال دلی کے نظام الدین علاقے میں تبلیغی جماعت کے صدر دفتر میں جمع لوگوں سے نہیں کرنا چاہیے ۔


انھوں نے صحافیوں سے کہا، ’وہ (مرکز میں جمع لوگ) ایک بلڈنگ کے اندر جمع تھے، جبکہ کمبھ میں آئے لوگ کھلے میں ہیں اور یہاں تو گنگا بہہ رہی ہے۔ ماں گنگا کے بہاؤ اور برکت سے کورونا کی وبا دور ہی رہے گی ماں گنگا اسے پھیلنے نہیں دیں گی تبلیغی جماعت کے اجتماع سے اس کا موازنہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔


پچھلے سال اپریل میں کئی میڈیا چینلز نے نظام الدین مرکز میں تبلیغی جماعت کے اجتماع کو نشانہ بنا کر مسلسل ایک ہیش ٹیگ ٹرینڈ کروایا تھا اس کا نام تھا کورونا جہاد۔


اُنھیں غیر ذمہ دار اور ’طالبانی‘ کہا گیا، ان پر 25 مارچ 2020 سے لگائے گئے ملک گیر لاک ڈاؤن کے ابتدائی ہفتوں میں کورونا وائرس پھیلانے کا الزام لگایا گیا۔ اس کے بعد مسلمان دکانداروں کے بائیکاٹ کی لہر چلی۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز بیانات کا سیلاب آ گیا اور زیادہ تر ٹی وی میڈیا نے نظام الدین مرکز میں آنے والے افراد کو کڑی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔


25 مارچ 2020 کے آس پاس جب ملک میں ہر دن کورونا کے ڈھائی سو کیس سامنے آ رہے تھے، تو حکمران جماعت بی جے پی، آئی ٹی سیل کے امیت مالویہ نے کہا تھا کہ نظام الدین میں تبلیغیوں کا جمع ہونا جرم ہے

14 اپریل کو امیت مالویہ نے ایک ٹویٹ کی جس میں اُنھوں نے کہا، ’پچھلے 24 گھنٹوں میں دلی میں کورونا کے 13,468 کیس سامنے آئے ہیں۔ یہ ممبئی کے 7,873 کیسوں سے لگ بھگ دگنا ہیں۔ دلی میں کوئی الیکشن نہیں ہو رہا۔ کبمھ بھی نہیں ہے۔ یہ سب صرف دلی میں ایک نااہل وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کے ہونے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ لیکن وہ اخباروں میں خوب اشتہار دے رہے ہیں۔


انڈیا میں جمعرات کو کورونا وائرس کے دو لاکھ کیسز سامنے آئے۔ جب سے یہ وبا شروع ہوئی ہے تب سے ایک دن میں اتنے کیسز کبھی ریکارڈ نہیں کیے گئے۔ وفاقی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق بدھ کو ایک لاکھ 84 ہزار 372 نئے کیس سامنے آئے تھے۔ تاہم جمعرات کو یہ تعداد دو لاکھ 739 تک پہنچ گئی۔


12 اور 14 اپریل کو کمبھ میں دو شاہی اشنان ہوئے۔ 12 اپریل کو سوموتی اماوسیہ اور 14 اپریل کو میش سکرانتی پر، ان میں 48.51 لاکھ لوگوں نے حصہ لیا۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر کووڈ کے تمام حفاظتی پروٹوکولز کی خلاف ورزی کرتے نظر آئے، نہ تو لوگوں نے ماسک پہنے تھے اور نہ ہی وہ سماجی فاصلے برقرار رکھے ہوئے تھے.


ہریدوار میں اس سال کا کمبھ میلہ یکم اپریل سے شروع ہوا تھا اور یہ تیس اپریل کو ختم ہو گا.


بھگوان پر بھروسہ وائرس کو ختم کر دے گا


اس سال پانچ اپریل کو ملک میں پہلی بار ایک دن میں کورونا وائرس کے ایک لاکھ کیس سامنے آئے تھے، لیکن چھ اپریل کو اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ تیرتھ سنگھ راوت خود کمبھ میلے میں نظر آئے۔ ان کا ماسک ٹھوڑی تک کھسکا ہوا تھا۔ اس سے پہلے اُنھوں نے کہا تھا کہ میلہ سب کے لیے کھلا ہونا چاہیے۔


20 مارچ کو انھوں نے اعلان کیا تھا کہ ’کووڈ کے نام پر کسی کو بھی میلے میں آنے سے نہیں روکا جائے گا۔ ایشور پر بھروسہ اور عقیدہ وائرس کو ختم کر دے گا۔ مجھے اس کا پورا یقین ہے۔


جبکہ اس سے جدا جو دوسری دنیا ہے، اس میں ٹی وی چینل اور آن لائن میڈیا کے اینکرز، وزیر اعظم کو ویکسین گرو کہہ کر ان کی تعریف کر رہے ہیں۔ اُنھیں کمبھ میں لوگوں کے اجتماع میں بہت زیادہ خطرہ نظر نہیں آ رہا جبکہ کمبھ میلے سے آنے والی تصاویر صاف دکھا رہی ہیں کہ وہاں کووڈ پروٹوکول کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔


میڈیا کا پرانا رخ بدلا، لیکن تھوڑا سا


انڈیا کے میڈیا کے ایک بڑے حصے کو ہریدوار میں 30 اپریل تک لوگوں کو جمع ہونے دینے کے حکومت کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن غیر ملکی میڈیا کمبھ میں اتنے لوگوں کے جمع ہونے پر سوال اٹھا رہا ہے اور اسے ’سوپر سپریڈر‘ کہا جا رہا ہے۔


واشنگٹن پوسٹ کے ایک اداریے میں لکھا گیا ہے کہ ’کورونا وائرس کی وبا نے انڈیا کو نگل لیا ہے لیکن لوگ ابھی بھی گنگا میں بنا ماسک پہنے ڈبکی لگا رہے ہیں ٹائم میگزین نے لکھا کہ پیر کی تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ گنگا میں نہانے کے لیے لوگوں کی بھاری تعداد جمع ہے لیکن پولیس کے پاس لوگوں کو سماجی فاصلے قائم کروانے کا کوئی حق نہیں ہے۔


اترا کھنڈ پولیس کے سربراہ سنجے گنجیال نے نیوز ایجنسی اے این آئی کو بتایا کہ پولیس نے اگر کمبھ میں سماجی فاصلے کے قواعد کا نفاذ کرنے کی کوشش کی ہوتی تو ’بھگدڑ جیسی صورت حال‘ پیدا ہو سکتی تھی۔ گھاٹوں پر سماجی فاصلے کے قواعد کو نافذ کروانا بےحد مشکل ہے۔ دوسری طرف یہی پولیس دعویٰ کر رہی ہے کہ کورونا پروٹوکول کی خلاف ورزی کو پکڑنے کے لیے وہ مصنوعی ذہانت کا استعمال کر رہی ہے۔


اس کے لیے ہریدوار میں 350 سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے ہیں۔ ان میں سے 100 سے زیادہ میں مصنوعی ذہانت کے سینسر لگے ہیں۔ ان کیمروں میں ریکارڈ ہونے والی تصاویر میں صاف نظر آ رہا ہے کہ لوگ بغیر ماسک پہنے گھوم رہے ہیں سماجی فاصلے کے قواعد کی دھجیاں اڑ رہی ہیں۔


پچھلی بار سنہ 2010 میں مہا کمبھ ہوا تھا۔ پچھلے کچھ ماہ میں وفاقی اور کچھ ریاستی حکومتوں نے کئی ایسے مذہبی اجتماعات کی منظوری دی ہے جن میں بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوئے۔ ان کے بارے میں بھی لوگوں نے سوشل میڈیا پر سوال اٹھائے۔ کچھ صحافیوں کا کہنا ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ تعصب کیا جا رہا ہے۔


الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں اس معاملے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے، کیا وزیر اعظم نریندر مودی نے مذہبی رہنماؤں کی طرف سے مخالفت کے ڈر سے ان اجتماعات میں لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی نہیں لگائی؟ ملک کے میڈیا کا بڑا حصہ اس بارے میں خاموش تھا۔ حالانکہ اب کچھ مٹھی بھر نامہ نگاروں نے اس پر سوال اٹھانا شروع کیے ہیں۔


جمعرات کو انڈیا ٹوڈے گروپ کے راہل کنول نے ٹویٹ میں کہا کہ ’سرکار کو کمبھ میلے اور اس جیسے کسی بھی بڑے اجتماع پر سخت پابندی لگانی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کی ریلیوں پر بھی پابندی لگے۔ جب کورونا وائرس اس تیز رفتار سے بڑھ رہا ہے تو اس طرح کے اجتماعات خود کشی کے مترادف ہیں۔ ایسی بیوقوفیوں کو کوئی بھی بھگوان معاف نہیں کرے گا۔ زندگیاں ووٹوں سے زیادہ قیمتی ہیں۔


سرکردہ صحافی ابھیسار شرما کہتے ہیں کہ ’صحافیوں کے رخ میں تھوڑی سی تبدیلی آئی ہے کیونکہ ان میں سے کئی لوگوں کے گھر پر کورونا نے دستک دی ہے بہار اور اتر پردیش میں وہ نظام صحت کے تباہ ہونے کا منظر خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔


مرکزی دھارے کے میڈیا میں کمبھ کی کوریج کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہاں تو پوری طرح سے مذہبی تفریق کے نظریے سے چیزیں دکھائی اور کہی جا رہی ہیں۔


ابھیسار شرما کہتے ہیں کہ ’نظام الدین میں تبلیغی جماعت کے لوگوں کے جمع ہونے سے پہلے دلی میں دو چیزیں ہو چکی تھیں۔ شاہین باغ میں شہریت کے متنازع قانون سی اے اے کے خلاف مظاہرے چل رہے تھے اور اس کے بعد اسی سے منسلک دلی میں فسادات ہو چکے تھے۔


’شاہین باغ کے مظاہرے اور دلی میں ہونے والے فسادات میں میڈیا برسراقتدار جماعت کے ہی ایجنڈا کو دکھا رہا تھا۔ بی جے پی کی پروپیگینڈا مشینری مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ کا ایجنڈا چلا رہی تھی۔ تبلیغی جماعت کے معاملے میں اس کے اس طرح کے پروپیگینڈا کی پول کھل گئی۔


’دراصل انڈیا کے مین سٹریم میڈیا اور بی جے پی کے پروپیگنڈا مشینری میں کوئی فرق ہی نہیں رہ گیا ہے۔ کمبھ کے معاملے میں ہندوتوا کا پس منظر ہے جو بی جے پی کے ایجنڈا کے لیے مفید ہے۔ کمبھ کووڈ کا سوپر سپریڈر بن گیا ہے لیکن میڈیا برسراقتدار جماعت سے سوال نہیں کر رہا ہے۔


میں شرط لگا سکتا ہوں کہ رمضان کے دوران کوئی مذہبی تقریب ہوئی تو یہی میڈیا گلا پھاڑ پھاڑ کر چلائے گا۔ کمبھ پر سوال کیا تو بی جے پی کے ایجنڈا کو نقصان نہیں پہنچے گا؟


وہ کہتے ہیں کہ دراصل اس کھیل کی کئی تہیں ہیں۔ میڈیا میں یہ جو تعصب نظر آ رہا ہے وہ اسی کا نتیجہ ہے۔ اس کا کافی تعلق ملک کے نیوز رومز میں مختلف برادریوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی کمی سے جڑا ہے۔


ابھیسار کہتے ہیں کہ ’انڈیا کے نیوز رومز میں کام کرنے والے زیادہ تر صحافی نام نہاد اونچی ذاتوں سے ہیں۔ بی جے پی کے نظریے سے وہ ایک طرح سے متفق ہیں۔ صحافیوں میں خوف بھی ہے۔ بی جے پی کئی طریقوں سے دباؤ ڈالتی ہے۔ یہ میڈیا ریڈیو روانڈا کی طرح کام کر رہا ہے۔ یا یہ جرمنی میں گیسٹاپو کی طرح ہے۔


پچھلے سال اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے وزیر مختار عباس نقوی نے کہا تھا کہ تبلیغی جماعت نے اپنے لوگوں کو نظام الدین کے مرکز میں شامل ہونے کی اجازت دے کر ’طالبانی جرم‘ کیا ہے۔ جب انڈیا میں کورونا کی وبا پھیلی ہوئی ہو تو تبلیغی جماعت کی طرف سے اپنے لوگوں کو پورے ملک میں جانے کو کہنا جرم ہے۔ لیکن کمبھ کے بارے میں یہ رخ بدلا ہوا نظر آیا۔ اس بارے میں خاموشی نظر آ رہی ہے یا پھر بیچ بچاؤ کے بیان دیے جا رہے ہیں۔


میڈیا تبلیغی معاملے میں بھی قصوروار، اور کمبھ معاملے میں بھی


دائیں بازو کے ماہانہ پرنٹ میگزین اور نیوز پورٹل ’سوراجیہ‘ کی سینئیر ایڈیٹر سواتی گویل شرما کہتی ہیں کہ ’دیکھیے، انڈیا میں کئی مذاہب ہیں۔ ان کے درمیان ایک مقابلہ بھی ہے۔ ’بھیڑ‘ کے لیے کسی مذہبی برادری کو الزام دینا بیوقوفی ہے۔ صرف کمبھ میں ہی تو لوگ جمع نہیں ہو رہے ہیں۔ بیساکھی پر گورودواروں میں بھی بھیڑ نظر آ رہی ہے۔ رمضان میں مساجد میں بھی کافی لوگ نظر آ رہے ہیں۔ ہر جگہ ہزاروں کی بھیڑ ہے۔ لوگ سماجی فاصلے اور ماسک کے بغیر ہی جمع ہو رہے ہیں۔


شرما کہتی ہیں کہ ’حکومت یا تو تمام مذہبی اجتماعات پر پابندی لگا دے یا پھر پوری طرح اس کی اجازت دے دے۔ نہیں تو اس پر مذہبی فریق کا الزام لگے گا۔ اس سے مذہبی بنیادوں پر کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ اس سال ہولی کا تہوار لوگوں نے زیادہ تر گھروں پر ہی منایا۔ ایک خبر کے مطابق جب ممبئی میں ہولی پر منعقد ہونے والی سماجی اور ذاتی تقاریب پر پابندی لگائی گئی، لیکن ساتھ ہی شب برات منانے کی اجازت یہ کہہ کر دی گئی کہ امید ہے کہ لوگ بڑی سطح پر نہیں منائیں گے۔ لوگوں نے سوشل میڈیا پر اس کی کافی مذمت کی تھی۔


شرما کے مطابق غیر ملکی میڈیا میں کمبھ کے بارے میں بھی اسی طرح کی خبریں سامنے آ رہی ہیں جس طرح تبلیغی جماعت کے بارے میں آ رہی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’گوگل پر کمبھ ٹائپ کرنے کی بعد نیوز سیکشن میں جائے تو آپ کو زیادہ تر خبریں کورونا کے بارے میں ہی ملیں گی۔ اس طرح کی شہ سرخیاں: کورونا کے پھیلاؤ کے درمیان انڈیا کے ہندو تہوار پر وسیع اجتماع۔


وہ کہتی ہیں کہ جس طرح سے پچھلے سال تبلیغی جماعت کو کورونا پھیلانے کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا گیا تھا ٹھیک اسی طرح اس بار میڈیا کا ایک طبقہ کمبھ کے بارے میں وہی کر رہا ہے۔


لیکن میڈیا واچ ڈاگ دی ہوٹ کی سیونتی ناین کہتی ہیں کہ ’کورونا کہ دوسری لہر کو فراموش کر کے کمبھ میں ہونے والی اجتماع کے بارے میں میڈیا میں جو لکھا یا بولا جا رہا ہے اس میں یہ صاف نظر آ رہا ہے کہ اس میں وہ تلخی نہیں ہے جو پچھلے سال تبلیغی جماعت کے اجتماع کے بارے میں تھی۔ مذہبی منافرت کو بھڑکانے کے لیے کوئی تعصبانہ جملہ بھی ٹوئٹر پر نہیں اچھالا جا رہا ہے۔


’ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ پچھلے سال سی اے اے اور دلی فسادات کے بارے میں ماحول بےحد گرم تھا اور کچھ حد تک بی جے پی کے کچھ سرکردہ رہنماؤں نے مسلسل شاہین باغ کے مظاہرین اور سی اے اے کے مخالفین کے خلاف مہم چلا رکھی تھی۔ لیکن اس بار بغیر کسی احتیاط کے کمبھ میں ہونے والے اجتماع کے خلاف کوئی سیاسی رہنما یا پارٹی اس طرح سامنے نہیں آئی ہے۔‘


ہاں، اب مرکزی دھارے کے میڈیا میں کچھ اینکروں نے کمبھ میں ’مقدس اشنان‘ پر سوال اٹھانے شروع کیے ہیں۔


ٹائمز ناؤ کی نویکا کمار نے اس اجتماع کے بارے میں کہا کہ انڈیا اس وقت ایک سنجیدہ صورت حال کا سامنا کر رہا ہے کمار نے حکومت کی اجازت سے ہونے والے اس طرح کے مذہبی اجتماعات اور سیاسی ریلیوں کے بارے میں بات کی ہے۔


تاہم ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی زیادہ کھل کر بولا۔ اس نے کہا کہ جب بورڈ کے امتحانات ملتوی کیے جا رہے ہیں تو کورونا کی دوسری لہر کے درمیان لاکھوں لوگوں کو کمبھ میں جمع ہونے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟


سوالوں کو ہندو۔مسلم کے چشمے سے دیکھنے والا میڈیا


میڈیا پر نظر رکھنے والے ماکھنلال چترویدی یونیورسٹی کے پروفیسر موکیش کمار کہتے ہیں کہ ’وہ چیزوں کو صرف ہندو۔ مسلم کے چشمے سے دیکھتے ہیں۔ جب تبلیغی جماعت کا معاملہ آیا تو میڈیا نے لگ بھگ تشدد کی حالت پیدا کر دی تھی۔


جبکہ پچھلے کچھ ماہ میں کئی مذہبی تقاریب پر لوگ جمع ہوئے ہیں۔ دوسرے مذہب کا معاملہ ہو تو چشمہ بدل جاتا ہے۔ ہندو تہواروں، تقاریب پر ہونے والے اجتماعات کا وہ دفاع کرنے لگتے ہیں۔


’لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اس طرح کے اجتماعات ہندوؤں کے بھی خلاف ہیں کیونکہ آخر کار اس سے ان کو ہی نقصان ہو گا۔ یہ ردعمل نہیں ہے، یہ پروپیگینڈا مشینری ہے اور اس کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں۔ میڈیا میں مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ تعصب رہا ہے لیکن پہلے قومی میڈیا میں کچھ قواعد و ضوابط تھے، اب ایسا نہیں ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ہم ہٹلر کے جرمنی میں رہ رہے ہیں۔


ابھیسار شرما کہتے ہیں کہ لوگوں کے پاس اب خبروں کے متبادل ذرائع ہیں۔


وہ کہتے ہیں کہ ’عام لوگوں سے بات کرنے پر پتہ چل جاتا ہے کہ وہ اسے وسیع تباہی کا میلہ سمجھ رہے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ ’بھکت‘ ہیں۔ ایسے ہی لوگ کمبھ میں اجتماع کی حمایت کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر لوگ سچ بتا رہے ہیں۔


ایک نیوز چینل کے مشہور نامہ نگار نے اپنا نام ظاہر نہ کیے جانے کی شرط پر کہا کہ میڈیا صحیح سوال نہیں کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’دیکھیے یہاں دوئی چلتی ہے۔ ہندو کا سوال، مسلم کا سوال، جیسے ان کے گردے اور جگر الگ الگ ہوں۔ اکھیلیش یادو کمبھ کیوں گئے؟ اگر تبلیغی جماعت غلط تھی تو اکھیلیش یادو کا کمبھ جانا صحیح کیسے ہو سکتا ہے؟


مرکزی دھارے کا میڈیا اب شاید اپنا رویہ کچھ تبدیل کر رہا ہے۔


ٹائمز ناؤ نے آخر کار سٹاپ سپر سپریڈر ہیش ٹیگ چلا کر اس طرح کے اجتماعات پر اپنا مؤقف ظاہر کیا لیکن اب تک کمبھ میں شامل سادھوؤں اور دیگر افراد کے لیے ’انسانی بم‘، ’کورونا سنگرام‘ یا ’کورونا جہاد‘ جیسے الفاظ کا استعمال کرنے کی ہمت نہیں کر سکے ہیں۔


وہ تو اب بھی ’عقیدت مند‘، ’بھکت‘ اور ’زائرین‘ ہیں۔


دارالحکومت دلی کی بیٹھکوں میں اب بھی کئی لوگ تبلیغیوں پر تہمت لگا رہے ہیں۔ اس کے باوجود کہ عدالت نے اُنھیں کورونا پھیلانے کے الزام سے بری کر دیا ہوا ہے۔


دلی کے جن گھروں کے کچھ کمروں میں لوگ مر رہے ہیں، وہیں دوسرے کمروں میں کچھ لوگ اب بھی ٹی وی دیکھ رہے ہیں جس پر عوام کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ حکومت پر الزام کبھی نہیں لگاتے۔


نام نہ شائع کرنے کی گزارش کرنے والے ایک اور صحافی نے کہا کہ اقتدار کے بارے میں سچ کہنا اب گزرے دنوں کی بات ہو گئی ہے۔ ’اب تو یہاں مرتے ہوئے لوگ بھی دکھائی نہیں دیتے۔‘  (بشکریہ بی بی سی) 

Post a Comment

0 Comments